غزل : حافظؔ ہی کے زمانے کا دورِ قمر ہے آج - صفیؔ لکھنوی

غزل
خافظؔ ہی کے زمانے کا دورِ قمر ہے آج
برپا جو ہر مقام پر اک شور و شر ہے آج

بویا گیا جو زہر یہاں ڈیڑھ سو برس
ہر بِس کی گانٹھ اک شجرِ بارور ہے آج

بغض و حسد کا باغ ترقی پذیر ہے
کل پُور بھر جو پیڑ تھا وہ ہاتھ بھر ہے آج

وہ اب کہاں فرشتۂ روحانیت جو تھا
انساں ہر ایک نفس کے زیرِ اثر ہے آج

نازک بہت ہے مسئلۂ زندگی صفیؔ
دنیا تمام کا رگہِ شیشہ گر ہے آج
صفیؔ لکھنوی
 
Top